از قلم: ندیم سرسوی
دیکھنے والے سادگی دیکھ کے فورا کہتے تھے
خود کو اس نے رنگ لیا اخلاق پیغمبر ص سے
دوہری نقابیں رکھنے والے عہد کے لوگوں میں
فخر ہے مجھ کو وہ یکساں تھا اندر باہر سے
ان کی نرم مزاجی کی کچھ ایسی خوشبو تھی
پھول بنا دیتا تھا وہ لمحوں میں پتھر سے
ہر دل میں احساس کی صورت زندہ رہتا یے
ان کے جیسا عالم کب ہٹتا ہے منظر سے؟!
ان کے عمل میں دکھ جاتا تھا ان کے علم کا نور
پہلے خود کرتا تھا پھر کہتا تھا منبر سے
دنیا پرستوں کو جوتی کی نوک پہ رکھتا تھا
بوئے ابوذر آتی تھی اس کے ہر تیور سے
علم کی پیاسی موجوں کا دل غم سے پھٹتا ہے
فرقت کتنی بھاری ہے حکمت کے سمندر سے
از قلم ندیم سرسوی